حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ –صوفیاء کی نظر میں

  • Admin
  • Feb 01, 2022

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ –صوفیاء کی نظر میں

ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی بریلی شریف (انڈیا)

ملک ہندوستان اپنی خوش نصیبی پر جس قدر بھی فخر و ناز کرے کم ہے کہ اسکی دھرتی پر اعاظم اسلام نے جنم لیکر اسلام کی شوکت وعظمت کا پرچم بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا نام بھی اونچا کیا۔

 پہلی اسلامی صدی سے ہی عرب شریف اور دیگر بلا داسلامیہ سے اولیاء ،صوفیاء ،علماء اور مجاہدین کا کارواں اس ملک میں آ کر ٹھہر نا شروع ہو گیا اور پھر ان بندگان الٰہی اور مردان خدا نے اس ملک کوا پنا مسکن اور وطن بنالیا اور انہیں کے وجود کی برکت اور اسلام کے فیضان سے یہ ملک نہال اور مالا مال ہوتا چلا گیا۔

حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی الرحمن نے اس سرزمین پر قدم رنجہ فرما کر جب اجمیر کو اپنا مسکن اور میدان عمل بنایا تو ان کے اعلٰی اسلامی اقدار کے برتاؤ تبلیغی مساعی اور روحانی درخشندگی نے اس سرزمین کونور بار کر دیا ۔ اسلام کا اجالا پھیلتا بڑھتا چلا گیا اور ملک ہند اسلامی دیس بن گیا۔ انہیں خواجہ بزرگ سے اس ملک میں مجدد مین کا ظہور شروع ہوا اور یہی پہلے ہندوستانی مجد داسلام یعنی 7 ویں صدی ہجری کے مجدد تسلیم کیے گئے ۔ حضرت خواجہ خواجگان ہی کی دعاؤں اور روحانی مدد کے طفیل سلطان غوری کوراۓ پتھورا پر فتح نصیب ہوئی اور ہندوستان میں مستقل مسلم حکومت کے قیام کا آغاز ہو گیا۔

 زمانہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ ہندوستان کی حکومت مغلیہ خاندان میں آ چکی تھی ۔ اس عہد مغلیہ میں (اکبری عہد فرمانروائی میں) 971ہجری مطابق 1564ء میں مشرقی پنجاب کے شہر سر ہند میں شیخ عبدالاحدؒ کے گھر شیخ احمؒد نامی ایک بچہ نے آنکھیں کھولیں۔ یہی بچہ بڑا ہو کر ایک عظیم و جلیل عالم ربانی، شیخ کامل، عارف باللہ اور قطب وقت بن کر اُبھرا اور اس کے فرق اقدس پر گیارہویں صدی ہجری کی مجددیت کا تاج آراستہ ہوا۔ آج اس مرد کامل کو زمانہ ''شیخ سرہندی'' امام ربانی''اور’’ مجددالف ثانی‘‘ کے نام ِنامی اسم گرامی سے جانتا، مانتا اور یاد کرتا ہے اور جب بھی لفظ مجد دسماعت کے جہان میں اترتا ہے تو ذہن صرف اسی مجددذی شان کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔

حضرت شیخ سرہندی امام ربانی مجددالف ثانی نوراللہ مرقدہ نے اپنے مرشد برحق حضرت خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہ کی وفات (1012ھ/1603ء) کے بعد اپنی تبلیغی مساعی کو تیز تر کر دیا یہاں تک کہ سرزمین ہند کی کایا پلٹ گئی ۔ 

ایام کا نہیں را کب ہے قلندر

کارنامہ تجدید: 

حضرت شیخ سرہندی ، مجددالف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا دور مسلمانان ہند کیلئےبڑا قاتل دور تھا۔ باغ اسلام جسے اولیاء علماء اور سرفروشان اسلام نے اپنے خون جگر سے میچ کر سرسبز و شاداب کیا تھا ، حضرت خواجہ اجمیری اور ان کے خلفاء در خلفاء اور دوسرے صلحائے امت اور سپاہیان اسلام نے بہاروں کا شباب عطا کیا تھا مغل شنہشاہ جلال الدین محمد ا کبرا سے پامال اور نذرخزاں کر رہا تھا۔ اسے اپنی فرمانروائی کے زعم میں اپنے لیے سجدہ تعظیمی لازمی قرار دیا ،علی الصباح لوگوں کو اپنے درشن دینے کی رسم شروع کی ،اور بھی کئی مشر کا نہ رسوم کو فروغ دیا، ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کر دی، اسلامی شعائر پامال ہونے لگے، مساجد شہید کی گئیں اور مندر تعمیر کرائے گئے ، اذانوں کی صداؤں پر پہرے بٹھا دیے اور گھنٹیوں اور ناقوسوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ اکبر نے بغیر مسلمان کیے ہندو عورت جو دھابائی سے شادی رچا کر اسے ملکہ ہند بنا دیا، غیرمسلموں کو من مانی کرنے کی چھوٹ تھی لیکن مسلمانوں پر مذہبی رسوم کی ادائیگی ناممکن بنادی حتی کہ اکبر نے ایک نئے دھرم ''دین الٰہی'' کی بنیاد رکھی ۔

 

 علماء سوء،صوفیاء خام اور دنیا پرست امراء وزراء الا ماشاء اللہ نے اس مذہب کی پیروی شروع کردی۔مسلمان حیران و پریشان سب کچھ دیکھ رہے تھے مگر جلال اکبری کے سامنے مجبور ولاچارنظر آ رہے تھے۔ ہر طرف ایک سناٹا طاری تھا، ایک خموشی برپاتھی، کسی مسجد، کسی مدرسہ ،کسی دارالافتاء اور کسی خانقاہ سے کوئی امام، کوئی عالم، کوئی مفتی ، کوئی شیخ میدان عمل میں اتر کر نعرہ حق بلند کرنے کیلیے تیار نہ تھا۔ہاں ایک مردمومن ایک مرد کامل اللہ کا ایک احسان یافتہ بندہ اپنے رسول علیہ السلام کا ایک عاشق صادق ، فاروقی اولا دایمانی غیرت وحمیت کے ساتھ نعرہ حق بلند کرتا ہے ۔اس نعرہ کا گونجنا تھا کہ ایوان شاہی لرز اٹھتا ہے اور تاج وتخت ہل جاتے ہیں۔

 

 حضرت مجددالف ثانیؒ اپنے علم وعمل کی قوت وطاقت اور اپنی بے پناہ روحانی توانائی اور بے مثال عزم سے مغل اعظم شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کو پاش پاش کر کے رکھ دیتے ہیں اور بے دینی و گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے معمورفضا کواحیاۓ دین کے نور سے جگمگا دیتے ہیں ۔ 1014ھ/1605ءمیں اکبر فوت ہو جاتا ہے۔ اکبر کے مرنے کے بعد شہزادہ نورالدین محمدسلیم جہانگیر تخت شاہی پر براجمان ہوا۔ گو جہانگیر اول آخر مسلمان تھا لیکن بے عملی کا شکار ، شراب و کباب اور رقص و سرود کارسیا تھا، اسکی کئی ہند و بیویاں تھیں ۔ جہانگیر کے تخت نشین ہوتے ہی حضرت مجددالف ثانیؒ نے اصلاح وتبلیغ کا کام اور تیز کردیا تھا۔ جہانگیر حضرت مجد وعلیہ الرحمۃ سے متاثر تو تھا، اس نے اکبری الحاد کا خاتمہ بھی کر دیا تھا لیکن ملک میں خرافات وخرابات اور بے عملی نیز شیعیت کا اب بھی دخل تھا۔

 

 چونکہ حضرت امام ربانیؒ شیعی نظریات کارد بلیغ فرماتے تھے اس لیے جہانگیر کا وزیراعظم آصف جاہ دل ہی دل میں ان سے بیر رکھتا تھا لیکن ان کے اثرات کے مدنظر جہانگیر کو ان کے معاملے میں احتیاط کا مشورہ دیا کرتا تھا۔

 

 موقع دیکھ کر حاسدین و مخالفین نے حضرت مجدد ؒکی جلد اول کے گیارہو یں مکتوب کو تو ڑمروڑ کر بادشاہ کے سامنے پیش کر کے حضرت مجدد ؒسے باز پرس کا مشورہ دیا۔ وہ جانتے تھے کہ استقامت کا مہ کوہ گراں اور یہ پیکر عزم وعزیمت اور دین وشریعت کا پاسبان شہنشاہ ہند کو سجدہ تعظیمی ہرگز نہ کرے گا لہٰذا اسطرح اسے شہنشاہی عتاب کا شکار ہونا پڑے گا۔ آخر یہی ہوا اور جہانگیر نے سجدہ تعظیمی بجانہ لا نے پر حضرت مجد دؒکوقلعہ گوالیار میں قید کر دیا۔

 

 اللہ ا کبر! جو غیرت مند بندہ الٰہی اور حقیقی نائب رسالت پناہی جلال اکبری سے مرعوب نہ ہوا بھلا وہ جہانگیر کے آگے سرخم کیسے کر دیتا؟ 

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمئ احرار

 حضرت مجد وعلیہ الرحمہ نے قید و بند کی حالت میں بھی اپنی تبلیغی مساعی جاری رکھیں ،سینکڑوں مشرکین کی تبلیغ سے دامن اسلام سے وابستہ ہوئے ،فساق و فجار کو مومنانہ توفیق حاصل ہوئی۔ 

شاعر مشرق علامہ اقبال ؒنے حضرت مجددؒ کی بابت سچ ہی کہا ہے۔ 

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں

اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

صوفیاء کرام کے تاثرات:

حضرت امام ربانی مجددالف ثانی ؒنے تجدید دین وملت کا جو کارنامہ انجام دیا ہے ، رہتی دنیا تک آنیوالے مسلمان ان کے اس کا رنامہ عظیم سے حرارت اور روشنی لیتے رہیں گے ان کے علم و فضل ، شان ولایت ،حق گوئی و بے با کی ، دینی وملی خدمات اور احیائے دین وسنت کے کارناموں سے متاثر ہوکر ان کے معاصر صوفیاء وصلحاء سے لیکر عصر موجودہ تک کے ان گنت صوفیاء علماء نے ان کی عظمتوں کا اعتراف کیا ہے اور انہیں خراج ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔

 چند تمہیدی کلمات اور حضرت مجدعلیہ الرحمۃ کے کارنامہ تجدید کی ایک جھلک پیش کرنے کے بعد راقم ان کی بابت صوفیاء کرام کے تاثرات پیش کر رہا ہے۔

 یہ واضح رہے کہ صوفی وہی ہے جو عالم شریعت ہو اور پھر شریعت ہی کی روشنی اور رہنمائی میں طریقت کی منزل طے کرے۔ ہر بے نفس عالم ربانی پر صوفی کا اطلاق ہوتا ہے ۔

 1۔مرشدِ مجدد حضرت خواجہ محمد باقی اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  :

اگر کسی مرید کا پیرخودمرید کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہو اور اسکی عظمتوں کا معترف ہو تو بھلا اس مرید کی بڑائی اور بلندی کا انداز ہ کوئی اور کیا لگا سکتا ہے؟ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ ؒحضرت مجدد ؒکے پیر طریقت ہیں ۔ وہ انکی بابت اس طرح اظہار خیال فرماتے ہیں: 

(ترجمہ) شیخ احمد سر ہند کے رہنے والے ہیں، بڑے عالم اور عامل ہیں ۔ فقیر نے چند روزان کے ساتھ نشست و برخاست کی ہے اور بہت ہی عجیب باتیں مشاہدہ کیں ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ آگے چل کر ایک ایسا چراغ بنیں گے جس سے دنیاروشن ہوگی ۔الحمد للہ ! (خواب محمد ہاشم کشمی: زبدة القامات 45)

2۔مولا نا عبد الحکیم سیالکوٹی  رحمۃ اللہ علیہ :

 اپنے زمانہ کے علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر، عالم جلیل حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ حضرت مجددصاحب قبلہ علیہ الرحمۃ کے ہم عصر علماء میں تھے ۔انہوں نے حضرت شیخ سرہندی کو ’’ مجددالف ثانی‘‘ قرار دیا اور پھر علماء وصلحاء نے اسکی تائید و تصدیق کی‘‘۔ 

3۔ مولا نا محمد حسن غولی علیہ الرحمۃ مریدشاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ:

 آپؒ نے حضرت مجد دعلیہ الرحمۃ کوان القاب سے یادفرمایا:

 (ترجمہ) ''بالانشین مند محبوبیت دصدرا مرا محفل وحدانیت ، خد لو مقام فردیت وصاحب مرتبہ قطبیت''

(خواجہ محمد ہاشم کشمی: زبدة المقامات ص218) 

4۔ مولا نا غلام علی آزاد بلگرامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ:

 (ترجمہ )''ایک ابر باراں ہے جس نے عرب وعجم کو سیراب کر دیا ہے۔ ایک آفتاب ہے جس کی روشنی مشرق و مغرب تک پھیل چکی ہے ۔ علوم ظاہر و باطن کے جامع ہیں اور ظاہر و باطن خزانوں  کے مالک ہیں۔

 (سبحتہ المرجان فی آثار ہندوستان ص 47)

5۔شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمۃ:

 حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت مجد درحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ''ردروافض ''کی عربی شرح لکھی ہے ۔ اس میں تحریرفرماتے ہیں: 

(ترجمہ ) یہ رسالہ ایسے یکتائے زمانہ ،فرید وقت اور کامل الفن نے تصنیف کیا ہے جو شریعت اور طریقت میں ثابت قدم ہے، معرفت و حقیقت میں ایک بلند پہاڑ کی مانند ہے، ناصر سنت اور قامع بدعت ہے، خدا کا روشن چراغ ہے، اسکے مومن بندوں میں سے جو چاہتا ہے اس سے روشنی حاصل کرتا ہے، دشمنان خدا ، کفار اور بدعتیوں کیلئےوہ اللہ کی ننگی تلوار ہے ، امام عارف ہے، روشن دماغ عالم ہے ، جس کا نام مولا ناشیخ احمد فاروقی ماتریدی، حنفی نقشبندی سرہندی ہے۔ ( محر منظور نعمانی: تذکره مجددالف ثانی ص 303)

6۔شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ: 

آپ ؒایضاح الطریقہ میں تحریرفرماتے ہیں :

 چاروں عالی شان سلسلہ ہائےطریقت سے اخذ اور کسب فیوض کے علاوہ اللہ کی درگاہ سے مواہب جلیلہ اور عطایائےنبیلہ سے سرفراز ہوئےہیں ، ان کے کمالات و حالات کو سمجھنے سے عقل متحیر وعاجز ہے۔ حضرت خواجہ قدس اللہ سرہ العزیز کے مکاتیب شریف سے آپ ؒکے کمال کا علم ہوتا ہے۔

 (شاہ غلام علی دہلوی: الیضاح الطريقہ56)

7۔امام احمد رضا بریلوی قدس سره :

ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا محمد علی مونگیری کے نام اپنے ایک مکتوب ( محرر 55 رمضان المبارک 1313ھ) میں لکھتے ہیں:

'' بالفعل آپؒ جیسے صوفی صافی منش کو حضرت شیخ مجد والف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد یاد دلاتا ہوں اور اس پر عین امتشا ل کی امید رکھتا ہوں حضرت ممدوح اپنے مکتوب شریف میں ارشاد فرماتے ہیں۔

"قادمبتدع زیادہ تر از فسادصد کا فراست'' مولا ناخدا را انصاف! آپ یازید اور اراکین مصلحت دین و مذہب کو زیادہ جانتے ہیں یا حضرت مجدد؟ مجھے ہرگز آپ ؒکی خوبیوں سے امید نہیں کہ اس ارشاد ہدایت بنیاد کو معاذ اللہ لغو و باطل جانئے اور جب وہ حق ہے اور بیشک حق ہے تو کیوں نہ مانئے۔ (مکتوبات ام احمدرضا مطبوعلام 30: 91)

 8- خلیفہ امام احمد رضا حضرت مفتی ضیاءالدین مدنی علیہ الرحمہ:

 شیخ محمد عارف مدنی کے بقول حضرت مفتی ضیاءالدین قبلہ مدنی علیہ الرحمہ نے دونوں دست مبارک سر پر رکھ کر فرمایا: حضرت مجددعلیہ الرحمہ الف ثانی ہمارے سر کے تاج ہیں، ہمارے سر کے تاج ہیں۔ 

9۔ حضرت علامہ ڈاکٹر محد مسعوداحمدمظہری کراچی : 

" حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمہ عالم ِاسلام کے ان مشاہیر میں سے ہیں جن کے افکار و نظریات نے عالم اسلام کومتاثر کیا۔ آپ ؒکے افکار وخیالات میں دور جدید کے مسائل ومشکلات کامل موجود ہے ۔

 10۔حضرت پیر فضل الرحمن آغا مجددی: 

''اس وقت ہر طرف اندھیرا نظر آ رہا ہے، اس اندھیرے میں حضرت مجددالف ثانی علیہ الرحمہ کی تعلیمات مینارہ نور ہیں‘‘ ( یادگار مجدد الف ثانی (مجلہ) ص 129 مطبوعہ پاکستان) 

11۔میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی سجاد نشین آستانہ عالی شیربانی شرقپورشریف:

 ’’ آپ بلاشبہ مجددالف ثانی ہیں ۔ آپ ؒکے وجود مسعود سے ملت اسلامیہ کوحرارت ملی ، جذبہ جہاد ملا اور ایک انقلاب برپا ہوا ،مستقبل میں آنے والے اسلامی انقلابات میں آپؒ کا خون جگر شامل رہے گا۔‘‘ 

(یادگارمجددالف ثانی (مجلہ ) مطبوعہ پاکستان 1422ھ/ 2002 ص67)